Azeem Jaan
gkabel   Islamabad, Pakistan
 
 
پاکستان بہترین ملک ہے
Sin conexión
بارٹو بیٹا کتیا
بہ قول ڈاکٹر احسن اقبال:

”انگریزوں کی پوری کوشش یہ تھی کہ ہندوستانی باشندے زیادہ سے زیادہ جاہل رہیں،ان کا خیال تھا کہ تعلیم حاصل کرکے یہ لوگ ہمارے اقتدار کے لیے خطرہ بن جائیں گے؛ اس لیے اگر تعلیم کا نظم کیا بھی تو وہ محض عیسائیت کے لیے؛ ورنہ اعلیٰ تعلیم کا ہندوستانی باشندوں کے لیے کوئی نظم نہ تھا“۔(۱)

دراصل انگریز اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اگر برصغیر میں مغربی طرز کے تعلیمی ادارے کھولے گئے تو اس سے عوام میں بیداری آئے گی اور جس طرح امریکہ وغیرہ میں جدید علوم کی درس گاہیں قائم ہوجانے کے بعد ہمیں امریکیوں کو آزادی دینی پڑ گئی تھی اسی طرح برصغیر جوکہ سونے کی چڑیا سے کم نہیں ہے؛ اگر ہم نے یہاں پر جدید تعلیمی ادارے قائم کردیے تو ایک نہ ایک دن ہمیں یہاں سے لازماً بوریا بستر گول کرنا پڑے گا؛ اس لیے بہتر یہی ہے کہ یہاں کے لوگوں کو تعلیمی لحاظ سے پسماندہ رکھا جائے۔(۲)

تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو اپنی رائے بدلنی پڑی؛ چنانچہ وائسرائے ہند لارڈمنٹونے اس مقصد کے لیے ایک طویل یادداشت کورٹ آف ڈائریکٹر ان کو بھیجی کہ علم کا روز بہ روز زوال ہورہا ہے اور ہندوؤں اور مسلمانوں کی مذہبی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے دروغ حلفی اور جعل سازی کے جرائم بڑھ رہے ہیں؛ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم وتربیت پر زیادہ سے زیادہ روپیہ خرچ کیاجائے اور کالج وغیرہ کھولے جائیں۔ آخر بڑی تگ ودو کے بعد ہندوستانیوں کو تعلیم دینے کے لیے ایک کمیٹی قائم ہوئی جس کی سفارش پر تعلیم دینے کے لیے ایک لاکھ روپیہ کی سالانہ گرانٹ منظور کی گئی؛ تاہم اس قانون کا سب سے زیادہ فائدہ چارلس گرانٹ کی طرح عیسائی مبلغین کو پہنچا جو برصغیر کو بحیثیت مجموعی عیسائی بنانے کی آرزو رکھتے تھے۔ اس طرح حکومتی سرپرستی میں کئی تعلیمی ادارے قائم ہوئے جہاں انگریزی کی آڑ میں عیسائیت کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مثلاً کلکتہ کا اینگلوانڈین کالج (۱۸-۱۸۱۷/) بنارس کا جے نرائن کالج (۱۸۲۱/) اور آگرہ کالج (۱۸۲۳/) وغیرہ۔(۳)

۱۸۳۳/میں جب اتفاق سے یہی چارلس گرانٹ ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈ آف کنٹرول کے صدر منتخب ہوئے تو برطانوی دارالعوام میں ہندوستان کی مذہبی اور اخلاقی ترقی کے متعلق ان کی تجویز کثرت رائے سے منظور ہوگئی۔ اس طرح برصغیر میں پادریوں کی آمد اور عیسائیت کی نشر واشاعت کے لیے گویا وہ پورا پھاٹک ہی کھل گیا ،جس کی پہلے صرف ایک کھڑکی کھلی تھی۔(۴)

ان پادری حضرات نے اہلِ ہند کے مذاہب؛ خاص کر دینِ اسلام پر تابڑ توڑ حملے کرکے پورے ملک کو فرقہ وارانہ مناظروں کی آگ میں جھونک دیا جس کے نتیجے میں مولانا محمد قاسم نانوتوی مولانا رحمت اللہ کیرانوی مولانا منصور علی خاناور ڈاکٹر وزیر خان کی طرح علماء حق نے میدان میں آکر اہلِ باطل کا مقابلہ کیا اور اسلام کی حقانیت پر عیسائیوں اور ہندوؤں سے فیصلہ کن مناظرے کرکے دنیا کو وہ علمی سرمایہ فراہم کیا جو اپنی مثال آپ ہے اور ہماری ملی تاریخ کا جلی عنوان ہے۔(۵)

دوسری طرف یہ استعماری تعصب اس وقت مزید نمایاں ہوکر سامنے آیا، جب ہندوستانیوں کے لیے ذریعہٴ تعلیم کا مسئلہ طے کیا جانے لگا اور برصغیر کے مستقبل کے متعلق اس اہم موضوع پر دو مختلف نظریات کے حامل افراد سامنے آئے۔ ایک وہ جو انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بناکر ایک ایسا نظامِ تعلیم رائج کرنا چاہتا تھا جس کی جڑیں اس ملک کے عوام میں نہیں تھی اور دوسرا وہ جو مشرقی علوم کو برقرار رکھ کر اس میں مغربی سائنس کی پیوندکاری کے حق میں تھا۔ مؤخر الذکر گروہ کے پر جوش حامی پر نسپ صاحب سیکریٹری ایشاٹک سوسائٹی تھے جو ایک معتدل سوچ رکھنے والی شخصیت تھے؛ جب کہ اول الذکر گروہ کے سرخیل لارڈمیکالے (T.B Macaulay) تھے جو نہ صرف یہ کہ انگریزی علوم کے زبردست حامی اور موٴید تھے بلکہ اس حوالے سے خاصے متعصب بھی تھے اور مشرقی علوم وفنون کو انتہائی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

اس کی اس متعصبانہ ذہنیت کا اندازہ ان اقتباسات سے لگایا جاسکتا ہے جو اس نے ایک یادداشت کی شکل میں ۳/فروری ۱۸۳۵/ کو بیرک پور (کلکتہ) کے مقام پر گورنر جنرل ہند لارڈ ولیم بینٹنک کو پیش کی جس پر مباحثہ کے لیے جنرل کمیٹی برائے پبلک انسٹرکشن کا اجلاس ۷/مارچ ۱۸۳۵/ کو منعقد ہوا۔ وہ کہتے ہیں:

”ہمارے پاس ایک رقم (ایک لاکھ روپیہ) ہے ،جسے گورنمنٹ کے حسب ہدایت اس ملک کے لوگوں کی ذہنی تعلیم وتربیت پر صرف کیا جاتا ہے، یہ ایک سادہ سا سوال ہے کہ اس کا مفید ترین مصرف کیا ہے؟ کمیٹی کے پچاس فیصداراکین مصر ہیں کہ یہ زبان انگریزی ہے باقی نصف اراکین نے اس مقصد کے لیے کوئی ایسا شخص نہیں پایا ہے جو اس حقیقت سے انکار کرسکے کہ یورپ کی کسی اچھی لائبریری کی الماری میں ایک تختے پر رکھی ہوئی کتابیں ہندوستان اور عرب کے مجموعی علمی سرمایہ پر بھاری ہیں۔ پھر مغربی تخلیقاتِ ادب کی منفرد عظمت کے کما حقہ معترف تو کمیٹی کے وہ اراکین بھی ہیں جو مشرقی زبانوں میں تعلیم کے منصوبے کی حمایت میں گرم گفتار ہیں“۔

”ہمیں ایک ایسی قوم کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا ہے جسے فی الحال اپنی مادری زبان میں تعلیم نہیں دی جاسکتی ہے۔ ہمیں انھیں لازماً کسی غیر ملکی زبان میں تعلیم دینا ہوگی، اس میں ہماری اپنی مادری زبان کے استحقاق کا اعادہ تحصیلِ حاصل ہے ہماری زبان تو یورپ بھر کی زبانوں میں ممتاز حیثیت کی حامل ہے، یہ زبان قوتِ متخیلہ کے گراں بہا خزانوں کی امین ہے۔ انگریزی زبان سے جسے بھی واقفیت ہے اسے اس �
Actividad reciente
739 h registradas
usado por última vez el 16 ENE
333 h registradas
usado por última vez el 1 ENE
18.3 h registradas
usado por última vez el 26 DIC 2024
Comentarios
Бывает 16 ENE a las 12:24 p. m. 
-rep ♥♥♥♥♥♥ клоун, сын спидозной ♥♥♥♥♥. Зря ты выпрыгнул из туалета в ♥♥♥♥♥ своей матери. Не умеет играть!
somali 19 JUN 2021 a las 11:19 a. m. 
░░░░░░░░░░░█▀▀░░█░░░░░░
░░░░░░▄▀▀▀▀░░░░░█▄▄░░░░
░░░░░░█░█░░░░░░░░░░▐░░░
░░░░░░▐▐░░░░░░░░░▄░▐░░░
░░░░░░█░░░░░░░░▄▀▀░▐░░░
░░░░▄▀░░░░░░░░▐░▄▄▀░░░░
░░▄▀░░░▐░░░░░█▄▀░▐░░░░░
░░█░░░▐░░░░░░░░▄░█░░░░░
░░░█▄░░▀▄░░░░▄▀▐░█░░░░░
░░░█▐▀▀▀░▀▀▀▀░░▐░█░░░░░
░░▐█▐▄░░▀░░░░░░▐░█▄▄░░░
░░░▀▀░ ▄+rep▄ ░░░▐▄▄▄▀░░░
░░░░░░░░░░░░░░░░░░░░░░░
Cosmos 22 DIC 2020 a las 10:25 p. m. 
amin
BykuEz 31 OCT 2020 a las 6:01 a. m. 
Śmieć jebany stfu
XAYDI 27 JUL 2020 a las 11:48 a. m. 
-rep hack
wannabegrunger 26 JUL 2020 a las 1:48 p. m. 
FastAndBest oğlumdur